یہاں
ہر چہرے پر نقاب ہے
ہر شخص لبادہ اوڑھے ہے
اپنی فطرت برہنہ کو چھپانے کی خاطر
یہ اتنے جتن کرتے ہیں
ہمیشہ بنتے سنورتے ہیں،
ملبوس رہتے ہیں
مگر سب جانتے ہیں اس حقیقت کو
ان لبادوں کے اندر کی برہنگی کو
پھر حقیقت سے یہ نظریں چرانا کیا ہے؟
یہ خود کو پردوں میں چھپانا کیا ہے؟
کیوں ڈرتے ہو اس بے پردگی سے؟
اپنی ہی ذات کی برہنگی سے
کب تک حقیقت سے منہ موڑو گے؟
کب تک یہ لبادہ اوڑھو گے؟
اک دن یہ ملبوس تار تار ہونا ہے
تمہیں بھی دنیا پر آشکار ہونا ہے
پھر اس دن تم کیا کرو گے؟