ٹکڑوں میں بٹے معاشرہ کو
اک بات سمجھانا کافی ہے
پورے دنیا کے انسانوں کو
ایک ہی کتاب کافی ہے
رنگ و نسل کو اک پہچان بتایا
بڑھائی کے لئے تقوٰی کافی ہے
جن لوگوں نے اِس پیخام کو سمجھا
ان دیسوں میں ترقی کافی ہے
جن لوگوں نے اس کا مزاق اڑایا
ان ملکوں میں غربت کافی ہے
انسانوں کے سمندر میں پُرکی
ایک ہمدرد ڈھونڈنا کافی ہے
لائف اتنی مشکل بھی نہیں یا رب
پیٹ کے لئےاک روٹی کافی ہے
میرے دیس کے تمام خزانے اور روپے پیسے
میرے غریب حکمرانوں کے لئے ناکافی ہے
آبادی بربادی میں بدل رہی ہے خدارا بس کردو
آجکل اک بیوی اور دو بچّے کافی ہے