میں آئینے کے منہ تو کھبی بھی نہیں لگی
اچھی نہیں لگی تو بری بھی نہیں لگی
دو چار سال گزرے ہوئے مجھ کو دے سکے
یہ زندگی تو اتنی سخی بھی نہیں لگی
پھر کیا علاج_ درد_ تمنا کرو گے تم ؟
تم کو تو میرے دل کی لگی بھی نہیں لگی
حیرت ہے اس کی اتنی وفاؤں کے باوجود
یہ زیست کی سہیلی بھلی بھی نہیں لگی
سنتی تھی سنگ دل ہے بہت اس کی کج روی
اس کے مزاج میں تو کجی بھی نہیں لگی
حیرت سے اس کے بعد میں پتھرا کے رہ گئی
وہ جا چکا تو اس کی کمی بھی نہیں لگی
روئی ضرور ، آنکھ بھی پونچھی مگر یہ کیا ؟
میری ہتھیلیوں میں نمی بھی نہیں لگی