جب سے کنجوسی نے طُوفان اُٹھا رکھا ہے
میں نے سائیکل کو بھی سی این جی کرا رکھا ہے
آئیں مہمان تو چائے نہ ٹھنڈا پُوچھو
گھر کے ہر فرد کو کُچھ ایسا سِکھا رکھا ہے
بس میں بیٹھو تو اِک ہاتھ پھیلا کر رکھو
کنڈکٹر سمجھے گا کہ فقیر بِٹھا رکھا ہے
روٹی کھا لیتا ہوں میں جاکے مزاروں پہ جناب
کپڑے لتّے کے لیے این جی او کھُلا رکھا ہے
کُچھ نہیں چھوڑتا میں فطرہ ہو صدقہ یا خیرات
بیوی کو بہرِ زکات، بیوہ بتا رکھا ہے
مُستقل رہتا ہوں سُسرال میں مہماں بن کر
اپنا گھر میں نے کرایہ پہ چڑھا رکھا ہے
کوئی کنجُوس مُجھے کہتا ہے، کہتا ہی رہے
شیکسپئر کہتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے؟