نفس کے جو اسیر ہوتے ہیں
کس قدر بے ضمیر ہوتے ہیں
تاجِ شاہی نہ لایںٔ خاطر میں
جو بظاہر فقیر ہوتے ہیں
آسماں پر اُڑان ہوتی ہے
آپ جب ہم سفیر ہوتے ہیں
ہوش جو پل میں چھین لیتے ہیں
کسِ قدر دِل پزیر ہوتے ہیں
دوسروں کو حقیر جو سمجھیں
اصل میں خود حقیر ہوتے ہیں
کیا کریں گے زبان وا عذراؔ
جو انا کے اسیر ہوتے ہیں