نیا ہے شہر نئے آسرے تلاش کروں
تو کھو گیا ہے کہاں اب تجھے تلاش کروں
جو دشت میں بھی جلاتے تھے فصل گل کے چراغ
میں شہر میں بھی وہی آبلے تلاش کروں
تو عکس ہے تو کبھی میری چشم تر میں اتر
ترے لیے میں کہاں آئنے تلاش کروں
تجھے حواس کی آوارگی کا علم کہاں
کبھی میں تجھ کو ترے سامنے تلاش کروں
غزل کہوں کبھی سادہ سے خط لکھوں اس کو
اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں
مرے وجود سے شاید ملے سراغ ترا
کبھی میں خود کو ترے واسطے تلاش کروں
میں چپ رہوں کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسنؔ
اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں