وعدے سے اپنے کیسے مکر جائوں کیا کروں
رسوائیوں کے خوف سے مرجائوں کیا کروں
کیسے تری انا کی ہو تسکین یہ بتا
نظروں سے گرکے خود کی بکھر جائوں کیا کروں
در پر کھڑا ہوں دیر سے ہمت نہیں ہوئی
آواز دے کے تجھ کو ٹھہر جائوں کیا کروں
پیہم برس رہے ہیں پروں پر ہوا کے تیر
پرواز ہی کے نام سے ڈر جائوں کیا کروں
کیا حکم آپ کاہے بتا دیجئے حضور
جاری سفر رکھوں کہ ٹھہر جائوں کیا کروں
فاروق چپ رہو نہ کرو لن ترانیاں
تم کو غزل سنائوں کہ گھر جائوں کیا کروں