وہ اِک دیوار جو کہ درمیاں ہے
ہماری چاہتوں کا اِمتحاں ہے
ہے زیرِ آسماں برپا قیامت
مگر خاموش نیلا آسماں ہے
جہاں ہر اِک قدم بکھرے ہیں پتھر
اسی رستے میں میرا بھی مکاں ہے
اندھیرے رہ گیَۓ ہیں دُور پیچھے
کہ تا حدِ نظر اب کہکشاں ہے
میں تیری ذات سے ہی کب جدا تھی
جو تیرا ہے وہی میرا جہاں ہے
جگا دیتی ہے آخر ہر بشر کو
بڑی بیباک لمحوں کی اذاں ہے
نجانے کس جگہ ٹھہرے گا عذرا
سفر میں پھر ہمارا کارواں ہے