وہ عجب میری وفاؤں کا صلہ دیتا رہا
کیوں مجھے پل پل نیۓ دُکھ کی رِدا دیتا رہا
کشتیٔ اُمید پر جاری تھا گو میرا سفر
ڈُٔوبنے کا درس مجھ کو نا خدا دیتا رہا
عین ممکن تھا کہ میں دُکھ کے بھنور میں ڈُوبتی
پر مجھے اندر کا اِنساں حوصلہ دیتا رہا
جانے والے جا چکے تھے بے مکاں کر کے اُسے
ہر گھڑی اِک زخم گھر کا راستہ دیتا رہا
جِس کی خاطر زندگی کی راحتیں تج دیں وہ شخص
مجھ کو نا کردہ گناہوں کی سزا دیتا رہا
جب میں دیوانی تھی اُس کی وہ گریزاں ہی رہا
بعد میں رفعتؔ اگرچہ وہ صدا دیتا رہا