وہ کبھی میرا ہم خیال تھا
جو آج مجسم سوال تھا
کچھ مشکلیں تھیں کمال کی
کچھ حوصلوں پہ زوال تھا
کبھی ٹوٹ کر نہ بکھر سکا
بس یہی مجھ میں کمال تھا
سبھی ظلمتوں میں میرے ساتھ تھا
وہ تیری ذات پاک کا جمال تھا
ہاں میرا حسن ہے میری آگہی
میرے دشمنوں کو یہی ملال تھا
میری روح میں زہر اتار گیا
اسے منافقت میں کمال تھا
حبیب زندگی سے یوں الجھ گئے
کوئی اپنا بھی پرسان حال تھا