وہ ہاتھوں میں چہرا چھپائے تھی بیٹھی
وہ سب کچھ ہی اپنا لٹائے تھی بیٹھی
وہ جنگل کے لاچار آہو کی مانند
درندوں میں خود کو پھنسائے تھی بیٹھی
اسی کے لہو سے رنگی تھی وہ چادر
وہ جس سے بدن کو چھپائے تھی بیٹھی
جو پل بھر میں ٹوٹے کئی اس پہ محشر
وہ چیخوں سے اپنی بتائے تھی بیٹھی
وہ رسی کو بھی سانپ کہنے لگی تھی
وہ ڈر ایسا دل میں بٹھائے تھی بیٹھی
اسے باولی لوگ کہنے لگے تھے
وہ یوں اپنی سدھ بدھ گنوائے تھی بیٹھی
جو شادی کا جوڑا سنبھالے تھی پھرتی
اب اس کا کفن وہ بنائے تھی بیٹھی
وہ ذلت کے جیون سے بیزار ہو کر
کئی بار خود کو جلائے تھی بیٹھی
فقط اس کی ارتھی کا اٹھنا تھا باقی
وہ اک لاش خود کو بنائے تھی بیٹھی
اسے عدل کی بھیک مل ہی نہ پائی
وہ ہر ایک در کھٹکھٹائے تھی بیٹھی