یہ مانا کہ امیر شہرغاصب ہے
یہ مانا کہ امیر شہر نے تمیارا حق دبایا ہے
مگر یہ بھی تو سوچو تم
کہ اس شہر کے باسی
نجانے کتنی صدیوں سے
نجانے کتنے قرنوں سے
امیر شہر کی بد عہدی کے ستائے ہیں
کبھی اس شہر کے لوگوں کے چہروں کو
ذرا تم غور سے دیکھو
جہاں مایوسیوں نے گھر بنائے ہیں
ان آنکھوں میں جھانکو تم
جن میں خوف نے ڈیرے جمائے ہیں
ایسے میں ان کے بچوں کو
پہاڑی بھول بھلیوں میں
بھٹکا کر بھلا کیا پاؤ گے تم
انہیں آزاد کر دو
انہیں آزاد کر دو
ہاں اگر تم کر سکو تو
اپنی بانسری کے سر کی سچائی کو پھر سے آزماؤ
کوئی ایسی دھن بجاؤ
جو امیر شہر کا دل موم کر دے
یا اسے مغلوب کر دے