کوئی چہرہ نظر میں مسکرایا ہے
خیالوں نے دیا پھر اک جلایا ہے
تیری چاہت کی شدت نے ہی جاناں
تمنا کا نگر دل میں بسایا ہے
اچانک یاد آئے تو دل نے یہ سوچا
زمانے نے ہمیں کتنا ستایا ہے
پرستش کرتے کرتے تھک گئی اِس کی
جو بت یادوں کا میں نے خود بنایا ہے
ہوائے تیز سے ہی بھڑکا ہے
کس نے شوق کا شعلہ جلایا ہے