پوچھیں قصور اپنا یہ اجازت کہاں ہمیں
بولیں کچھ ان کے آگے یہ ہمت کہاں ہمیں
آوارگی دشت و جبل کے بعد د یکھئے
لے جائے گی یہ حالت و حشت کہاں ہمیں
بھائی نہ ہم کو آج تک کسی کی دوستی
راس آئے گی یہ پیار کی دولت کہاں ہمیں
سینے کے زخم دھل نہ سکےعمر بھر کا روگ
اوروں کے زخم د ھوئیں یہ فرصت کہاں ہمیں
اٹھوا نہ دیں وہ محفل سے تو اور کیا کریں
آداب محفل کی ہے عادت کہاں ہمیں
لکھتے ہیں ہم تو شعر دل لگی کے واسطے
ہے شہرت دنیا کی ضرورت کہاں ہمیں
اس دشت میں کھویا تھا اک چہرہ گلاب سا
ویرانے ا ب ملے گی وہ صورت کہاں ہمیں
کتابوں کے سوکھے پھولوں نے دی تھی جو کبھی
گلستاں میں ملے گی وہ سنگت کہاں ہمیں
یہ تو ہے گرفتار محبت کا ا حتجاج
ان کی بے رخی کی شکایت کہاں ہمیں
بارے اس کے ہم نے سنا تو بہت ہے
مل پائے گی لیکن وہ جنت کہاں ہمیں
ہم جل چکے ہیں آتش عشق میں اتنے
اب جلا سکے گی آتش قیامت کہاں ہمیں
کرم ہے جن پہ ان کا وہ اور ہیں قیصر
ملے گی ان کی نظر عنایت کہاں ہمیں