بہت روکا تھا ہم نے وقت کی بہتی روانی کو
مگر سمجھا نہیں پائے ہیں اب تک زندگانی کو
سنائی ہی نہیں ہے داستاں ہم نے تجھے اپنی
مگر تو دیا عنوان کیسے بے زبانی کو
ابھی تو بارشوں کی رت نہیں آئی برسنے کو
ابھی روکا ہے آنکھ میں اشکوں کے پانی کو
تیرے لفظوں سے جیسے برق سی گرتی ہے
عجب جلوے میسر ہیں تیری شلعہ بیانی کو
پگھلتی شمع کیسے موم سے آخر بنی پتھر
چھپایا دل میں اُس نے کسی طرح غم کی جوانی کو