پھر جدا ہونے کا منظر آ گیا ہے
اور شب ہجراں مرا گھر آ گیا ہے
شہر میں پھر برف باری ہو رہی ہے
آ بھی جاؤ اب دسمبر آ گیا ہے
سولیاں سنسان ہوتی جا رہی تھیں
دار کی خاطر مرا سر آ گیا ہے
کیا کہوں کیوں تیرے اندر آ گیا ہوں
چار دیواری ترا در آ گیا ہے
میری انگلی کو پکڑ کر میرا بچہ
میرے قامت کے برابر آ گیا ہے
بھر گئی ہے شہد کی منہ میں مٹھاس
نام یہ کس کا لبوں پر آ گیا ہے