مجھے نہ چھیڑ
بس یوہی خاموش رہنے دے
کہیں ضبط کے بندھن ٹوٹ نہ جائے
میری ذات کے پرزے
ریزہ ریزہ نہ ہوجائیں
میں یہ سوچتی اکثر
کیسے سمجھاؤں میں
اس درد کو
جو وقت کے ساتھ بڑھتا جائے
یہاں کوئی نہیں رکھتا مرہم
آتا مزہ سبکو نمک چھڑکنے میں
ہوں کیسی نادان میں
کہ اب تک نہ یہ سمجھ سکی
بھلا اس فانی دنیا میں
کون کیسے کسی کا کہلائے
جہاں روندا گیا ہر بار مجھے
عزت نفس کو میری کچلا گیا
میں سسکتی رہ گئی بس
آہ
دیکھ کے دنیا کے تماشے
مجھے بس اتنا ہی کہنا
اس ظالم سماج سے
اندھے رسم ورواج سے
کھوکھلے معاشرے سے
جب کچھ اچھا کر نہیں سکتے
کوئ ساتھ دے نہیں سکتے
دل گرفتگی کی بات کر نہیں سکتے
مرہم تم رکھ نہیں سکتے
تو یہ حق نہ چھینو صفت نازک سے
انہیں بھی چین سے جینے دو
کہ وہ بھی اپنے پر پھیلا سکے
اللہ کی عطا کی گئ زندگی کی
خوبصورتی کو سمیٹ سکے
کہ ہیں یہ حق انہیں
اللہ کا عطا کردہ
اسے تم چھین نہیں سکتے
اسے تم چھین نہیں سکتے