حالاتِ شہر کے گُمان سے ڈر لگتا ہے
آج انسان کو انسان سے ڈر لگتا ہے
خاک میں مِل گئیں کراچی کی حسیں روشنیاں
اب تو خود اپنی ہی پہچان سے ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر پریشان ہے ، افسردہ ہے
تذکرۂ کارِ شیطان سے ڈر لگتا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
اب مسلمان کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے
کون آئے گا ہمیں پیار سکھانے یارب ؟
وحشتِ حضرتِ انسان سے ڈر لگتا ہے