کراچی کیسی بستی تھی
قدم قدم پہ رونق برستی تھی
میرے بچپن کی وہ کھوئی کہانی ھے
جہاں اب چار سو ویرانی ھے
کوئی پنجاب سے آیا کوئی کشمیر سے آیا
کوئی سرحد ، بلوچستان کوئی ایران سے آیا
کوئی بنگال کوئی بغداد کوئی فاران سے آیا
سبھی آئے اندرون سندھ سے، کوئی ھندوستان سے آیا
عجب لوگ تھے جن کو راس آئی جو ھجرت
کلاچی مائی کی بستی میں لا بسائی اک جنت
تھی زبانوں اور نسلوں کی امیں یہ چھوٹی سی بستی
بستے بستے بن گئی عروس البلاد یہ بستی
پانی میں فقط لیموں ملا کر جو رزق کماتے تھے
صبح سے بیٹھ کر وہ شام کو خوشحال جاتے تھے
اب ان کے ھونٹ سوکھے ھیں
اب ان کے پیٹ خالی ھیں
پھٹے کپڑوں کی اوٹ میں اب وہ
ھر در پر سوالی ھیں
ھر موڑ پر اک جلتی نشانی ھے
دھشت گروں کی اب حکمرانی ھے
کوئی پوچھے کہاں سے آئے ھیں قاتل
کوئی بتائے کس نے بلائے ھیں قاتل
فقط قاتل ھیں یہ ان کی قومیت نہ پوچھ
یہ نہ پوچھ ، وہ نہ پوچھ ، اس سے نہ پوچھ
پوچھ اس سے یہ صرف تجھ کو لایا ھے، کون
خون انساں سے تو اب اس کی رنگت نہ پوچھ
جو پناہ دیتا ھے اس کو ، وھ بھی مجرم ، تو بھی مجرم
تو چراتا ھے نظر ، کرتا ھے اس سے صرف نظر
چند ھیں جو ، ساتھ ھیں ان قاتلوں کے ھم رکاب
اور کروڑوں منتظر ھیں کب آئے ان پر شتاب