کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر
تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأت اظہار پر
شاخ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر
سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول
میں نے دیکھا ہے نیا منظر فراز دار پر
اب کوئی تہمت بھی وجہ کرب رسوائی نہیں
زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر
میں سر مقتل حدیث زندگی کہتا رہا
انگلیاں اٹھتی رہیں محسنؔ مرے کردار پر