کِسی رات
محمد عثمان جامعی
روشنی سائے جگادیتی ہے
کتنی تصویریں ہیں ہر سائے میں
ان تصاویر سے ڈر لگتا ہے
آؤ سایوں کے اثر سے نکلیں
چلو گھر سے نکلیں
کھینچ کر گلیوں کے جسموں سے اندھیرا اوڑھیں
چھین کر سوتے مکانوں سے اندھیرا اوڑھیں
کتنی تنہا ہے سڑک
ساتھ اسے لے کے چلیں
بول خوابیدہ پہر
اور کسے لے کے چلیں!
چاپ قدموں کی کرے گفتگو سناٹے سے
رات سے بات کریں
خون آشام سوالات کریں
وہ سوالات اُجالے سے جو ڈر جاتے ہیں
در ودیوار پہ جب پہلی کرن رینگتی ہے
خاک ہوجاتے ہیں، اک پَل میں بِکھر جاتے ہیں
دور ویرانوں میں پھیلے ہوئے خالی لمحے
عکس وآواز کو ترساں یہ سوالی لمحے
ان کے کشکول لبالب بھردیں
اے چھلکتے ہوئے دل! آ تجھے خالی کردیں
اور پھر لوٹ چلیں
گھر، جہاں رہنا ہی ہے
صبح دفتر بھی ہے
دفتر
جسے سِہنا ہی ہے