میرا حال ہی نہیں حال میں کچھ اس طرح
فسا ہوا حیات کے سوال میں کچھ اس طرح
مرگ ضمیر عرف موت خودی شاہ بیتِ مردم
میں زندہ ہوں پر پامال میں کچھ اس طرح
کہ جہاں جاؤ بساط دیتا ہوں فتن و فساد کو
ہڈ بڑی سی ہے اٹھی اقبال میں کچھ اس طرح
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي پڑھا پر
دل بےقرار،فسا ہے اعمال میں کچھ اس طرح
عالمِ ارواح کی بستی سجاںئ ہے ملک الموت نے
-نفع ہے خُدا کو میرے انتقال میں کچھ اس طرح
انا اتنی ہے کہ درویشی کو مات دے دے جاناں
غصہ اتنا کہ خدا ختم مال میں کچھ اس طرح
شررؔ کو شکوہ ہے شمالی مغرب کے خُداوند سے
زباں پہ رکھ کہ دین زوال میں کچھ اس طرح