کچھ اِس لئے محرم کوئی اکثر نہیں بنتا
سایہ بھی کبھی قد کے برابر نہیں بنتا
میں کیا ہوں فقط ایک اداسی کا مسافر
لوگوں سے اجالا بھی ہو رہبر نہیں بنتا
وقتی ہی سہارا سبھی دیتے ہیں کوئی بھی
حالات کی قبروں کا مجاور نہیں بنتا
خود ہار میں جاتا ہوں ہر اک جنگِ انا میں
اُس سے کبھی جذبات کا لشکر نہیں بنتا
صحرا کو کہیں کھینچ کے دریاؤں میں لے جا
قطروں کو ملانے سے سمندر نہیں ملتا
لکھوں جو عقیلؔ اُس کو ملتے ہی نہیں لفظ
سوچوں تو کبھی اُس کا تصور نہیں بنتا