کچھ فیصلے خدا پر چھوڑ دیے جاتے ہیں
شاخوں سے بھی پھول توڑ دیے جاتے ہیں
جو لوگ خود کو کہتے تھے سخی میں نے دیکھا
ُانہی کے گھروں سے سوالی موڑ دیے جاتے ہیں
آسمان کو دیکھ کر سنجدیدگی سے کہنے لگی
قدرت چاہے تو ٹوٹے دل بھی جوڑ دیے جاتے ہیں
جو قسمت میں ہے مل کر رہنا ہے اک دن لیکن
کٹھن راستے کو دیکھ کر کچھ راستہ چھوڑ دیے جاتے ہیں
کہاں سے لاؤں میں حوصلہ خود سے ملنے کا
آنئیہ دیکھتے ہی دل کے شیشے توڑ دیے جاتے ہیں
اتنا امتحان اتنی آزماشیں آخر کیوں
معافی کے بعد بھی کیا دامن خالی چھوڑ دیے جاتے ہیں
اپنی ماں کو ہمشیہ خوش رکھنا لکی
ماں کی دعاوں سے طوفانوں کے رخ موڑ دیے جاتے ہیں