یا حبیب خدا، مصطفیٰ، مجتبیٰ
ڈوبتا ہوں میں مجھ کو بچا لیجئے
کس چکی ہے شکنجے میں دنیا مجھے
اسکے پھندے سے مجھ کو بچا لیجئے
آپ کے در سے پلتا ہے سارا جہاں
میں بھی بھوکا ہوں مجھ کو کھلا دیجئے
پھیر لی ہیں نگاہیں سبھی نے یہاں
اپنی چشم کرم سے عطا کیجئے
میں ہوں دھتکارا در در کا مارا ہوا
اپنے دامن میں مجھ کو پناہ دیجئے
آپ نے علم سارے جہاں کو دیا
مجھ سے جاہل کو بھی کچھ سکھا دیجئے
کھنچتا ہے جہنم سے مالک مجھے
آپ کا ہوں میں اسکو بتا دیجئے
شرم سے سر جھکائے کھڑا ہوں تنہاء
شاہ مجھ کو بھی اپنا بنا لیجئے
آقا سینے کے قابل میں ہرگز نہیں
اپنے نعلین مجھ پر لگا دیجئے
منہ کے بل گر رہا ہوں جہنم میں میں
مجھ سے گرتے کو آقا سنبھال لیجئے
حسرت و یاس ہے آپ کی آس ہے
بے نوا ہوں مدینے بلا لیجئے
کون دیگا پناہ آپ کے ماسواء
کالی کملی میں مجھ کو چھپا لیجئے
پس رہا ہوں مصائب کے پاٹوں تلے
مجھ سے رنج و الم اب ہٹا دیجئے
جسم اور روح دونوں ہی بیمار ہیں
اے طبیب اس حزیں کو شفاء دیجئے
بے ادب، بے اثر، بے قدر ہے اشہر
کھوٹا سکہ ہے آقا چلا دیجئے