Add Poetry

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا

Poet: Kaifi Azmi By: iftikhar, khi
Kahin Se Lout Ke Hum Larkharaye Hain Kya Kya

کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا

نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے
فراز دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا

جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا
تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا

چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں کیا کیا

اٹھا کے سر مجھے اتنا تو دیکھ لینے دے
کہ قتل گاہ میں دیوانے آئے ہیں کیا کیا

کہیں اندھیرے سے مانوس ہو نہ جائے ادب
چراغ تیز ہوا نے بجھائے ہیں کیا کیا
 

Rate it:
Views: 1747
07 Jul, 2017
Related Tags on Kaifi Azmi Poetry
Load More Tags
More Kaifi Azmi Poetry
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو یہ کس طرح یاد آ رہی ہو یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو
یہ جسم نازک، یہ نرم باہیں، حسین گردن، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، سیاہ گیسو
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، مہین ابرو
تمام شوخی، تمام بجلی، تمام مستی، تمام جادو
ہزاروں جادو جگا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
گلابی لب، مسکراتے عارض، جبیں کشادہ، بلند قامت
نگاہ میں بجلیوں کی جھل مل، اداؤں میں شبنمی لطافت
دھڑکتا سینہ، مہکتی سانسیں، نوا میں رس، انکھڑیوں میں امرت
ہمہ حلاوت، ہمہ ملاحت، ہمہ ترنم، ہمہ نزاکت
لچک لچک گنگنا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
تو کیا مجھے تم جلا ہی لو گی گلے سے اپنے لگا ہی لو گی
جو پھول جوڑے سے گر پڑا ہے تڑپ کے اس کو اٹھا ہی لو گی
بھڑکتے شعلوں، کڑکتی بجلی سے میرا خرمن بچا ہی لو گی
گھنیری زلفوں کی چھاؤں میں مسکرا کے مجھ کو چھپا ہی لو گی
کہ آج تک آزما رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
نہیں محبت کی کوئی قیمت جو کوئی قیمت ادا کرو گی
وفا کی فرصت نہ دے گی دنیا ہزار عزم وفا کرو گی
مجھے بہلنے دو رنج و غم سے سہارے کب تک دیا کرو گی
جنوں کو اتنا نہ گدگداؤ، پکڑ لوں دامن تو کیا کرو گی
قریب بڑھتی ہی آ رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
رانا علی
مکان آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
یہ زمیں تب بھی نگل لینے پہ آمادہ تھی
پاؤں جب ٹوٹتی شاخوں سے اتارے ہم نے
ان مکانوں کو خبر ہے نہ مکینوں کو خبر
ان دنوں کی جو گپھاؤں میں گزارے ہم نے
ہاتھ ڈھلتے گئے سانچے میں تو تھکتے کیسے
نقش کے بعد نئے نقش نکھارے ہم نے
کی یہ دیوار بلند، اور بلند، اور بلند
بام و در اور، ذرا اور سنوارے ہم نے
آندھیاں توڑ لیا کرتی تھیں شمعوں کی لویں
جڑ دیئے اس لیے بجلی کے ستارے ہم نے
بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
سو رہے خاک پہ ہم شورش تعمیر لیے
اپنی نس نس میں لیے محنت پیہم کی تھکن
بند آنکھوں میں اسی قصر کی تصویر لیے
دن پگھلتا ہے اسی طرح سروں پر اب تک
رات آنکھوں میں کھٹکتی ہے سیہ تیر لیے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
Anila
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets