ہماری آنکھ سے دیکھے کوئ مدینے کو
تو نور ہی نور پائے گا اپنے سینے کو
ہے ان کے عشق کی دولت سے دل تو مالا مال
یہ اور کیوں کبھی ترسے کسی خزینے کو
کہاں ہے مدحت آقا‘ کہاں یہ جوئے سخن
کہ بحر ہیں کئی درکار اس سفینے کو
جو ان کے ذکر پہ گرتا ہے اشک آنکھوں سے
فرشتے آ کے اٹھاتے ہیں ‘ اس نگینے کو
وہ ان کے روئے مبارک پہ جو دمکتا تھا
سلام کرتی ہے خوشبو بھی اس پسینے کو