گورکھ دھندا
Poet: By: Wajed Sharifi, Alexandrou Poliکبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے پامال ہوگئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندا ہو
ہر ذرے میں کس شان سے توں جلوہ نما ہو
حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے، توں کیا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
تجھے دیر و حرم میں، میں نے ڈھونڈا توں نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھکو اپنے دل میں دیکھا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندا ہو
جو الفت میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بت خانے، نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں توں چپ گیا ہے
کہیں توں ہست بن کر آگیا ہے
نہیں ہے توں، تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جسکو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ توں نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر توں
تو پھر میں کیسے سمجھا توں خدا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
عقل میں جو گر گیا لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھروہ خدا کیونکر ہوا
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
چھپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کہ جلوہ دکھا تے نہیں ہو تم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سماے ہو کسطرح
حلانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبدو حرم، یہ کلیسا و دیر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
تم اک گورکھ دھندا ہو
دل پہ حیرت نے عجب رنگ جما رکھا ہے
ایک الجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکر کیا ہے
کھیل کیا تم نے عزل سے یہ رچا رکھا ہے
روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی
اس پہ پھر موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے
دے کہ تدبیر کے پنچی کو اڑانے توں نے
دام تقدیر میں ہر سمت بچھا رکھا ہے
کرکے آرایش کونین کی برسوں توں نے
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
لامکانی کا بہر حال ہے دعویٰ بھی تمہیں
نہن و عقرب کا بھی پیغام سنا رکھا ہے
یہ برائی، وہ بھلائی، یہ جہنم، وہ بہشت
اس الٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و انصاف کا میعار بھی کیا رکھا ہے
دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
اک تماشا سا زمانے میں بنا رکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کے کھنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی برق تجلی سے مٹھا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈھلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہے کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعان
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
دیکھے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شاہ مصر بنا دیتے ہو
جزب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں ان الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چھڑا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جسکو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کہ تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو
جوتھ سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوے تل میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کرلے
اسکو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرادیتے ہو
تم اک گورکھ دھندا ہو
آپ ہی اپنا پردہ ہو
تم اک گورکھ دھندا ہو
جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے برا سا
پھر بھی ہے مجھے تم سے بہر حال گلہ سا
چپ چاپ رہے دیکھتے تم عرش بریں پر
تپتے ہوے کربل میں محمد کا نواسا
کسطرح پلاتاتھا لہو اپنا وفا کو
خود تین دنوں سے وہ اگرچہ تھا پیا سا
دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس
تم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا
کل تاج سجا دیکھا تھا جس شخص کے سر پر
ہے آج اسی شخص کے ہاتھوں میں ہی کاسہ
یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جواباً
اس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شناسا
تم اک گورکھ دھندا ہو
حیرت کی اک دنیا ہو
تم اک گورکھ دھندا ہو
راہ تحقیق میں ہر گام پہ الجھن دیکھوں
وہی حالات و خیالات میں ان بن دیکھوں
بن کہ رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
غور سے جب بھی کبھی دنیا کا دھرپن دیکھوں
ایک ہی خاک پہ فطرت کے تضادات اتنے
کتنے حصوں میں بٹا ایک ہی آنگن دیکھوں
کہی زحمت کی سلگتی ہوئی پت جھڑ کا سماں
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
کہیں پنکارتے دریا کہیں خاموش پہاڑ
کہیں جنگل، کہیں صحرا ، کہیں گلشن دیکھوں
خوں رلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نردھن دیکھوں
دن کے ہاتھوں میں فقط ایک سلگتا سورج
رات کی مانگ ستاروں سے مزین دیکھوں
کہیں مرجھائے ہوئے پھول ہے سچائی کے
اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں پہ بھی جوبن دیکھوں
شمس کی کھال کہی کچھتی نظر آتی ہے
کہی سرمد کی اترتی ہوئی گردن دیکھوں
رات کیا شہ ہے سویرا کیا ہے
یہ اجھالا یہ اندھیرا کیا ہے
میں بھی نایب ہوں تمہارا آخر
کیوں یہ کہتے ہو تمہارا کیا ہے
دیکھنے والا تجھے کیا دیکھتا
توں نے ہر ہر رنگ سے پردہ کیا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
مسجد مندر یہ میخانے
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
سب تیرے ہے جاناں کاشانے
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
اک ہونے کا تیرے قائل ہے
انکار پہ کوئی مایل ہے
اصلیت لیکن توں جانیں
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
اک خلق میں شامل کرتا ہے
اک سب سے اکیلا رہتا ہے
ہیں دونوں تیرے مستانے
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
سب ہے جب عاشق تمہارے نام کے
کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے
دیر میں توں حرم میں توں
عرش پہ توں زمیں پہ توں
جسکی پہنچ جہاں تلک
اس کے لیے وہی پہ توں
ہر اک رنگ میں یکتا ہو
تم اک گورکھ دھندا ہو
مرکز جستجو عالم رنگ و بو
دم بہ دم جلوہ گر توں ہی توں چار سو
ہوں کہ ماحول میں کچھ نہیں فی اللہ ھو
تم بہت دلربا تم بہت خوبرو
عرش کی عظمتیں فرش کی آبرو
تم ہو کونین کا حاصل آرزو
آنکھ نے کرلیا آنسوؤں سے وضو
اب تو کردو عطا دید کا اک سدو
آو پردے سے تم آنکھ کے روبرو
چند لمحے ملن دو گھڑی گفتگو
ناز جبھتا پھیرے جابجا کوہ بہ کوہ
وحدہ ھو وحدہ ھو ، لا شریک اللہ ھو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
جب لفظ ساتھ چھوڑ جائیں
جب آنکھ فقط نمی بولے
جب لب خالی رہ جائیں
کیا صرف سجدہ کافی ہے؟
کیا تُو سنے گا وہ آواز
جو کبھی ہونٹوں تک نہ آئی؟
جو دل میں گونجتی رہی
خاموشی میں، بے صدا؟
میرے سجدے میں شور نہیں ہے
صرف ایک لرزتا سکوت ہے
میری دعا عربی نہیں
صرف آنسوؤں کا ترجمہ ہے
میری تسبیح میں گنتی نہیں
صرف تڑپ ہے، فقط طلب
اے وہ جو دلوں کے رازوں کا راز ہے
میں مانگتا نہیں
فقط جھکتا ہوں
جو چاہا، چھن گیا
جو مانگا، بکھر گیا
پر تُو وہ ہے
جو بکھرے کو سنوار دے
اور چھن جانے کو لوٹا دے
تو سن لے
میری خاموشی کو
میری نگاہوں کی زبان کو
میرے خالی ہاتھوں کو
اپنی رحمت کا لمس عطا کر
کہ میں فقط دعاؤں کا طالب ہوں
اور وہ بھی بس تیرے در سے
سخاوت عثمان اور علی کی شجاعت مانگ رہے ہیں
بے چین لوگ سکون دل کی خاطر
قرآن جیسی دولت مانگ رہے ہیں
بجھے دل ہیں اشک بار آ نکھیں
درِ مصطفیٰ سے شفاعت مانگ رہے ہیں
سرتاپا لتھڑے ہیں گناہوں میں
وہی عاصی رب سے رحمت مانگ رہے ہیں
رخصت ہوئی دل سے دنیا کی رنگینیاں
اب سجدوں میں صرف عاقبت مانگ رہے ہیں
بھٹکے ہوئے قافلے عمر بھر
تیری بارگاہ سے ہدایت مانگ رہے ہیں
بروز محشر فرمائیں گے آقا یارب
یہ گنہگار تجھ سے مغفرت مانگ رہے ہیں
آنکھوں میں اشک ہیں ، لبوں پر دعا ہے
جنت میں داخلے کی اجازت مانگ رہے ہیں
ہر دور کے مومن اس جہاں میں سائر
اصحاب محمدجیسی قسمت مانگ رہے ہیں
دردِ مصطفے کی گدائی ملی
جو پڑھتے ہیں نعتِ شہِ دین کی
مجھے دولت خوش نوائی ملی
وہ دونوں جہاں میں ہوا کامراں
جنھیں آپ کی آشنائی ملی
نبی کا جو گستاخ ہے دہر میں
اسے ہر جگہ جگ ہنسائی ملی
جسے مل گئ الفت شاہ دیں
اسے گویا ساری خدائی ملی
غلامی کی جس کو سند مل گئی
اسے وشمہ پارسائی ملی
تو بے نیاز ہے تیرا جہاں یہ سارا ہے
ترے حضور جھکی جب جھکی ہے پیشانی
ترا کٰا ہی سجدوں میں جلوہ فرما ہے
تو آب و خاک میں آتش میں باد میں ہر سو
تو عرش و فرش کے مابین خود ہے تنہا ہے
تری صفات تری ذات کیا بیاں کیجئے
تو اے جہاں کے مالک جہاں میں یکتا ہے
تجھی سے نظم دو عالم ہے یہ کرم تیرا
تو کائینا کا خالق ہے رب ہے مولا ہے
تو ہر مقام پہ موجود ہر جگہ حاضر
تو لامکاں بھی ہے ہر اک مقام تیرا ہے
مرا بیان ہے کوتاہ تیری شان عظیم
ثناہ و حمد سے وشمہ زبان گویا ہے
Jab Khamosh Tha Rab Magar Ab Inteha Ho Gayi Thi
Waqt Ke Saath Yeh Zulm Barhne Laga Tha
Har Ek Bacha Khuda Ke Aage Ro Raha Tha
Tum Itne Jaahil The Ke Bachon Ki Aah Na Sun Sake
Yeh Khwahishen Yeh Baatein Yeh Minatein Na Sun Sake
Yun Roti Tarapti Jaanon Pe Tars Na Kha Sake Tum
Woh Maaon Ke Sapne Tod Ke Hanste Rahe Tum
Woh Masoomon Ki Duaein Rad Nahin Gayin
Woh Pyaaron Ki Aahen Farsh Se Arsh Pohanch Gayin
Phir Ek Jhalak Mein Teri Bastiyan Bikhar Gayin
Aag Yun Phaili Ke Shehar Tabah Aur Imaratein Jal Gayin
Phir Tumhare Barf Ke Shehar Aag Mein Lipat Gaye
Barf Se Aag Tak Safar Mein Tum Khaak Mein Mil Gaye
Tum Samajhte The Tum Badshah Ban Gaye
Tumhare Ghuroor Phir Aag Se Khaak Ban Gaye
Tum Unko Beghar Karte The Na Karte Reh Gaye
Aag Aisi Jhalki Ke Tum Be-Watan Ho Kar Reh Gaye
Aye Zaalim! Tum Chale The Bare Khuda Banne
Aur Tum Tamaam Jahano Ke Liye Ibrat Ban Ke Reh Gaye
روا ں ذ کرِ ا لہ سے بھی زبا ں کو رب روا ں رکھتا
جہا ں میں جو عیا ں پنہا ں روا ں سب کو ا لہ کرتا
مسلما نوں کے د ل کے بھی ا یما ں کو رب روا ں رکھتا
پکا را مشکلو ں میں جب بھی رب کو کسی د م بھی
ا ما ں مشکل سے د ی ، پھر ا س ا ما ں کو رب روا ں رکھتا
میرا رب پہلے بھی ، باقی بھی ، رب ظاہر بھی ، با طن بھی
جہا ں میں ذ کرِ پنہا ں عیا ں کو رب روا ں رکھتا
مُعِز بھی رب، مُذِ ل بھی رب ، حَکَم بھی رب ، صَمَد بھی رب
ثناءِ رب جہا ں ہو ، اُ س مکا ں کو رب روا ں رکھتا
بقا کچھ نہیں جہا ں میں خا کؔ ، سد ا رہے گا خدا اپنا
پوجا رب کی کریں ، جو ہر سما ں کو رب روا ں رکھتا






