ہارے ہوئے نصیب کا معیار دیکھ کر
وہ چل پڑا ہے عشق کا اخبار دیکھ کر
آئیں گی کام دیکھنا کاغذ کی کشتیاں
ہاتھوں میں اک یقین کا پتوار دیکھ کر
قرطاس پر سجا دیا اپنے ہی دکھ کا فن
اس عہدِ کربناک کا فنکار دیکھ کر
پہلے کی طرح آج بھی تنہا تو ہوں مگر
قد بڑھ گیا ہے باپ کی دستار دیکھ کر
انسان کی تو خُو ہے یہ انسان نوچنا
دنیا میں مفلسی کا عزا دار دیکھ کر
دشتِ وفا میں رقص کے جلتے ہیں کچھ چراغ
آنکھوں میں وشمہ مائی کا دربار دیکھ کر