ہجوم درد ملا زندگی عذاب ہوئی
Poet: شہریار By: Sohaim, singapore
ہجوم درد ملا زندگی عذاب ہوئی 
 دل و نگاہ کی سازش تھی کامیاب ہوئی 
 
 تمہاری ہجر نوازی پہ حرف آئے گا 
 ہماری مونس و ہمدم اگر شراب ہوئی 
 
 یہاں تو زخم کے پہرے بٹھائے تھے ہم نے 
 شمیم زلف یہاں کیسے باریاب ہوئی 
 
 ہمارے نام پہ گر انگلیاں اٹھیں تو کیا 
 تمہاری مدح و ستائش تو بے حساب ہوئی 
 
 ہزار پرسش غم کی مگر نہ اشک بہے 
 صبا نے ضبط یہ دیکھا تو لا جواب ہوئی
More Shahryar Poetry
بھولی بسری یادوں کی بارات نہیں آئی بھولی بسری یادوں کی بارات نہیں آئی
اک مدت سے ہجر کی لمبی رات نہیں آئی
آتی تھی جو روز گلی کے سونے نکڑ تک
آج ہوا کیا وہ پرچھائیں سات نہیں آئی
مجھ کو تعاقب میں لے آئی اک انجان جگہ
خوشبو تو خوشبو تھی میرے ہات نہیں آئی
اس دنیا سے ان کا رشتہ آدھا ادھورا ہے
جن لوگوں تک خوابوں کی سوغات نہیں آئی
اوپر والے کی من مانی کھلنے لگی ہے اب
مینہ برسا دو چار دفعہ برسات نہیں آئی
اک مدت سے ہجر کی لمبی رات نہیں آئی
آتی تھی جو روز گلی کے سونے نکڑ تک
آج ہوا کیا وہ پرچھائیں سات نہیں آئی
مجھ کو تعاقب میں لے آئی اک انجان جگہ
خوشبو تو خوشبو تھی میرے ہات نہیں آئی
اس دنیا سے ان کا رشتہ آدھا ادھورا ہے
جن لوگوں تک خوابوں کی سوغات نہیں آئی
اوپر والے کی من مانی کھلنے لگی ہے اب
مینہ برسا دو چار دفعہ برسات نہیں آئی
حضرت
یہ کیا ہوا کہ طبیعت سنبھلتی جاتی ہے یہ کیا ہوا کہ طبیعت سنبھلتی جاتی ہے
ترے بغیر بھی یہ رات ڈھلتی جاتی ہے
اس اک افق پہ ابھی تک ہے اعتبار مجھے
مگر نگاہ مناظر بدلتی جاتی ہے
چہار سمت سے گھیرا ہے تیز آندھی نے
کسی چراغ کی لو پھر بھی جلتی جاتی ہے
میں اپنے جسم کی سرگوشیوں کو سنتا ہوں
ترے وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے
یہ دیکھو آ گئی میرے زوال کی منزل
میں رک گیا مری پرچھائیں چلتی جاتی ہے
ترے بغیر بھی یہ رات ڈھلتی جاتی ہے
اس اک افق پہ ابھی تک ہے اعتبار مجھے
مگر نگاہ مناظر بدلتی جاتی ہے
چہار سمت سے گھیرا ہے تیز آندھی نے
کسی چراغ کی لو پھر بھی جلتی جاتی ہے
میں اپنے جسم کی سرگوشیوں کو سنتا ہوں
ترے وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے
یہ دیکھو آ گئی میرے زوال کی منزل
میں رک گیا مری پرچھائیں چلتی جاتی ہے
عالم
زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
مدت ہوئی جینے کا احساس نہیں ہوتا
دل ان سے تقاضا کر بیداد کریں پھر سے
مجرم کے کٹہرے میں پھر ہم کو کھڑا کر دو
ہو رسم کہن تازہ فریاد کریں پھر سے
اے اہل جنوں دیکھو زنجیر ہوئے سائے
ہم کیسے انہیں سوچو آزاد کریں پھر سے
اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
مدت ہوئی جینے کا احساس نہیں ہوتا
دل ان سے تقاضا کر بیداد کریں پھر سے
مجرم کے کٹہرے میں پھر ہم کو کھڑا کر دو
ہو رسم کہن تازہ فریاد کریں پھر سے
اے اہل جنوں دیکھو زنجیر ہوئے سائے
ہم کیسے انہیں سوچو آزاد کریں پھر سے
اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھر سے
صدام
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
اب جدھر دیکھیے لگتا ہے کہ اس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے کہیں کچھ کم ہے
آج بھی ہے تری دوری ہی اداسی کا سبب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
اب جدھر دیکھیے لگتا ہے کہ اس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے کہیں کچھ کم ہے
آج بھی ہے تری دوری ہی اداسی کا سبب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں کچھ کم ہے
فاروق
زندگی جب بھی تری بزم میں لاتی ہے ہمیں زندگی جب بھی تری بزم میں لاتی ہے ہمیں
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
سرخ پھولوں سے مہک اٹھتی ہیں دل کی راہیں
دن ڈھلے یوں تری آواز بلاتی ہے ہمیں
یاد تیری کبھی دستک کبھی سرگوشی سے
رات کے پچھلے پہر روز جگاتی ہے ہمیں
ہر ملاقات کا انجام جدائی کیوں ہے
اب تو ہر وقت یہی بات ستاتی ہے ہمیں
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
سرخ پھولوں سے مہک اٹھتی ہیں دل کی راہیں
دن ڈھلے یوں تری آواز بلاتی ہے ہمیں
یاد تیری کبھی دستک کبھی سرگوشی سے
رات کے پچھلے پہر روز جگاتی ہے ہمیں
ہر ملاقات کا انجام جدائی کیوں ہے
اب تو ہر وقت یہی بات ستاتی ہے ہمیں
عاقب
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں
اس شمع فروزاں کو آندھی سے ڈراتے ہو
اس شمع فروزاں کے پروانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں
کہنے کو تو دنیا میں مے خانے ہزاروں ہیں
اس شمع فروزاں کو آندھی سے ڈراتے ہو
اس شمع فروزاں کے پروانے ہزاروں ہیں
عادل








 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 