ہم جو ان ہاتھوں کو مصروف عمل رکھتے ہیں
مسئلے جو بھی ہوں خود سامنے حل رکھتے ہیں
اپنے حصے میں فقط باغ کی محنت آئی
پھول رکھتے ہیں نہ ہم پاس میں پھل رکھتے ہیں
دن کو مفلس ہیں تو کیا رات ہے شاہوں جیسی
ہم بھی خوابوں میں کئی تاج محل رکھتے ہیں
ہم انہیں دیکھ کے جیتے ہیں ستم تو دیکھو
جو ہمیں دیکھ کے پیشانی پہ بل رکھتے ہیں
ہم وہاں درس وفا دیں بھی تو کیا لوگ جہاں
بغض سینوں میں دماغوں میں خلل رکھتے ہیں
آپ کے شعروں میں فرحتؔ غم دوراں کیسا
اہل فن آپ سے امید غزل رکھتے ہیں