ہم نے حد سے گزر کے دیکھا ہے
اپنے قد سے ابھر کے دیکھا ہے
زندہ رہتے ہیں مرنے والے ہی
ہر کہانی میں مر کے دیکھا ہے
وقت بھی رک گیا وہیں جب سے
اس نے مجھ کو ٹہر کے دیکھا ہے
ہر گلی ایک جیسی لگتی ہے
ہر گلی سے گزر کے دیکھا ہے
عکس کیسا دکھاتا ہے مجھکو
آئینے میں اتر کے دیکھا ہے
کیا حسیں گھاس تھی کنارے پر
پانیوں نے گزر کے دیکھا ہے
نہ گھروندے بنانا آیا مجھے
ریت سے ہاتھ بھر کے دیکھا ہے
زندگی بھر کی پیاس ختم ہوئی
اسکی آنکھوں پہ مر کے دیکھا ہے