وطن کی قسمت سنوار دینگے
خزاں کے بدلے بہار دینگے
ہم اجڑے اجڑے سے اس چمن کو
نئے گلوں کا نکھار دینگے
وفاء پرستی کی مئے پلا کر
نظر کو سچا خمار دینگے
جو نفرتوں کا شکار تھے یاں
انہیں محبت کا ہار دینگے
جو چاہتوں کو ترس رہے تھے
انہیں عقیدت کا پیار دینگے
وہ جس نے پھولوں پہ حق جمایا
اب اس کو بدلے میں خار دینگے
جو موت کے رنگ بکھیرتا تھا
اب اس کو تختہ د ا ر دینگے
جو ظلم سہہ کر بھی چپ رہے تھے
ہم ان لبوں کو پکار دینگے
کچل کے وقعت جو کھو چکی ہیں
ا ن عزتو ں کو و قا ر دینگے
جو تیغ کُند ہو کہ بے ضر ر ہے
اب اس کو جرات کی دھار دینگے
جفائیں ساری شما ر کر کے
جفاء پرستوں پہ وا ر دینگے
جو چھپ رہا تھا ستم کے ڈر سے
ہم اس کو طا قت حصار دینگے
تباہ و برباد ہے معیشت
ہم اس کی حالت سدھار دینگے
جو بھیک دیتے ہیں آ ج ہم کو
ہم آ کر ان کو ادھار دینگے
اجالے چھینے گا جو یہاں پر
اسے اندھیروں کے غا ر دینگے
ڈبویا کچے مکا ں کو جس نے
ہم اس کو نفر ت کی نا ر دینگے
مفا د ملت کے رنگ سجا کر
انا ء کے پرچم کو پھا ڑ دینگے
جو آندھیوں میں ٹہر نہ پا ئے
ہم ا س شجر کو اکھا ڑ دینگے
جو موت آئے گی راستے میں
یقیں سے ا س کو پچھا ڑ دینگے
بس ایک جا ں ہے یہ غم ہے قا ئد
ہز ا ر ہوں تجھ پہ وا ر دینگے