بوجھ بنے ہیں دھرتی کا جو کرتے ہیں کفران
ان سے باز پرس کا مرحلہ لازم ہے ہر آن
فبای الا ربکما تکذبان
ارض و سما اقلیم ہے اس کی سن لیں جن و انسان
اس سے مفر کا زعم ہے جس کو کھلا ہے یہ میدان
تاب و تواں کا نشہ ہے جس کو ہے یہ وہم و گمان
کس کو میسر رب سے مفر کی قوت بے پایان
فبای الا ربکما تکذبان
خالق کے منکر کی خاطر تیار ہوئی ہے نار
جھونکا جائے گا وہ دھوئیں میں جو ہو گا تیرہ و تار
اس کے بعد اٹھیں گے شعلے جن میں نہ ہو گا دھواں
اس عذاب میں مشرک کو کہیں نہ ہو گی امان
کسی طرف سے بھی نصرت کا نہ ہو گا امکان
فبای الا ربکما تکذبان
حشر کے دن افلاک کا دامن ہو جائے گا چاک
دہک اٹھے گا فلک کا آنچل ہو گا قصہ پاک
رنگ فلک کا ایسے ہو گا جیسے چمڑا لال
اے کج رو انسانو اب بھی کچھ تو کر لو خیال
پہچانو رب کی قدرت کواے جن و انسان
فبای الا ربکما تکذبان
وہ خالق ہے سب لوگوں کی نیت سے آگاہ
جنوں اور انسانوں کے عمل کی اسے نہیں پرواہ
محشر کے دن خلقت کے عصیاں کا کیسا سوال
اسے تو نیک اور بد خلقت کی ہے بہت ا چھی پہچان
فبای الا ربکما تکذبان
جانتا ہے وہ خالق جن و انساں کے اطوار
اس کے علم میں ہے ان لوگوں کا قبیح کردار
خالق کے احسانات کا جو کرتے ہیں پیہم انکار
مجرم کے چہرے کی نحوست بنے گی پھر غماز
محشر کے دن عصیاں کے کھل جائیں گے سب راز
حق کا منکر حشر کے دن کڑی سزا پائے گا
پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر اس کو کھینچا جائے گا
مشرک کو ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹا جائے گا
اس دھرتی کے بوجھ کو آخر پیٹا جائے گا
اسے دکھلائی جائے گی جہنم جو ہو گی بہت قریب
یہی ہے وہ ہاویہ جس کی تم کرتے تھے تکذیب
رزق کھایا پھر بھی جھٹلایا اور کیا کفران
ہاویہ میں ہے کھولتا پانی اب اس میں کرو گزران
پے درپے چکر کھائیں گے اس میں یہ مجرم ہر آن
فبای الا ربکما تکذبان