یکتا ہے ذات تیری نہ ہمسر کوئی بھی ہے
ہمدم کوئی نہ تجھ سا نہ ہمراز کوئی ہے
محتاج تیرے سب ہیں تٌو سب کا ہے ہی داتا
آباد تیرے دم سے تو ہر شے جہاں کی ہے
بلبل کے چہچہوں میں تو کوئل کی کوکو میں
ہر سو چمن میں تیری تو حکمت جھلکتی ہے
پربت یہ اونچے اونچے یہ ندیاں رواں دواں
یہ جھلملاتے تارے کیا ضَو فِشانی ہے
دیکھو تو آسماں کو نہ کوئی ستون ہے
بادل بھی چل رہے ہیں نہ وہ کوئی فرشی ہے
گرمی بھی روشنی بھی تو سورج سے ملتی ہے
ہے آگ کا وہ گولا کیا بے نظیری ہے
کوئی فقیر ہے تو تونگر بھی ہے کوئی
ہر لمحہ دھوپ چھاؤں کیا زندگی ہی ہے
قدرت جو تیری دیکھی تو حیرت میں اثر ہے
بس تیری ہی بڑائی تو دل میں جمائی ہے