یہ جو انسان ہیں بے شمار
ان کے ارمان ہیں بے شمار
زندگی میں تجھے کیا لکھوں
تیرے عنوان ہیں بے شمار
اے خدا کر حفاظت میری
دشمن جان ہیں بے شمار
میری کشتی ہے ٹوٹی ہوئی
اور طوفان ہیں بے شمار
باغ میں گل کھلا ایک ہے
اور گلدان ہیں بے شمار
جس پہ قربان انور ہو تم
اس پہ قربان ہیں بے شمار