مجھ سے ہی پوچھ کہ اب مجھ پہ کیا گزرتی ہے
تیری ہی یاد جو ہر لمحہ گرد گھومتی ہے
دور کھڑے تکنا اُسے اور بس تکتے ہی جانا
ایسا کرنے سے یار بات کب سنورتی ہے
پھر تجھے کُھو کے نظر میری ہوئی یوں پاگل
کہ ہر اک نقش میں بس نقش تیرا ڈھونڈتی ہے
کافی تاخیر سے سمجھا تجھے اُلفت ہی نہ تھی
یہ محبت یوں آسانی سے کہاں بھولتی ہے
میں ہوں حیران کیوں اُلفت اُسے کہتے نہیں تم
جب تکلیف میں بھی ماں تمھیں جھولا جھو لتی ہے
اِس محبت پہ فقط شعر، اور اُدھر پوری غزل
ظاہر اس سے بھی میاں ہوتی تیری منصفی ہے