یہ پیار جب ہوا تو دیوان ہو گیا
یہ عشق جب ہو ا تو قرآن ہو گیا
ناؤ چلی میری منزل کی طرف جب بھی
ہر قطرہ دریا مجھے طوفان ہوگیا
مٹی، ہوا، پانی اور آگ کا تماشہ
یہ چار عناصر جو ملے انسان ہو گیا
دیکھا جو حال زار اس چارہ گرنے میرا
ُکچھ سوچ کے تو وہ بھی پریشان ہو گیا
قیصر جہان بے ثبات دیکھا جو غور سے
ُپختہ خدا پہ اور بھی ایمان ہوگیا