تیرا ہی نور ہر اک شے میں جھلملاتا ہے
تو ساعتوں میں ہی قدرت نئی دکھاتا ہے
تیرا مزاج، تیری شان، تیری صنّاعی
بنا کے مارتا ہے، مار کر جِلاتا ہے
بیان ہو نہیں سکتی ہیں وسعتیں تیری
بس ایک تو ہے کہ عالم جدھر سماتا ہے
جو دیدہ ور تھے اُن ہی پَر تُو آشکار ہوا
وگرنہ کون ترے جلوؤں کی تاب لاتا ہے
کبھی بہ صورت رویاء،کبھی بہ حکم وحی
تُو ا پنے راہ نو ر دوں کو آ ز ما تا ہے
طلب ہو گر تیر ے جلوئے کے دید کی صادق
تو چشم شوق کو جلوہ بھی تب دکھا تا ہے
تیرے جمال کی گردش میں ہیں یہ ارض و سماء
تیرا ہی عشق ان ہیں چار سو گھما تا ہے
تیرے سواء نہیں کو ئی بھی داد رس سب کا
تجھی کو ہر کوئی روداد غم سنا تا ہے
جو رزق پا کے بھی منکر تیرے کرم کا ہے
یہ تیری شا ن کے پھر بھی اسے کھلاتا ہے
بھٹک گیا جو تیری راہ چھوڑ کر مالک
بد ی کی راہ پر شیطان اسے بلاتا ہے
بدی کی راہ پہ نہ چل حق کی راہ کو دیکھ اشہر
کہ پانچ وقت مؤذن جدھر بلاتا ہے