پھر در و دیوار سے پاگل ہوا ٹکرا گئی
رات بھر نا سو سکے دہشت دلوں پہ چھا گئی
گم شدہ ماضی میرا یوں یاد آ کے رہ گیا
خواب میں جیسے کوئی تصویر سی لہرا گئی
طلسمتوں کی ردا اوڑھے ہوئے تھی شامِ غم
چاندنی کیوں نور میں آ کر مجھے نہلا گئی
تشنہ لب میں بادلوں کے ساتھ ہی اڑتی رہی
دشتِ جاں سے چلتے چلتے میں کہاں تک آگئی
گردشِ حالات کے آثار باقی رہ گئے
اپنی صورت دیکھ کر پھر آج میں گبھرا گئی