ریاضتوں سے اپنی سنورتا چلا گیا

Poet: rizwana By: rizwana, toronto

تھا دعوی مسیحائ کا اسے
زخموں کو اپنے ہی بھرتا چلا گیا

ماہ و سال کا حصول بتا تو سہی
سوال آئینے سے کرتا چلا گیا

کیا کھونا تھا کیا پانا تھ اسے
لکیروں میں مقدر کی ڈھلتا چلا گیا

روانی قلم پہ بڑا ناز تھا
مدحتیں اپنی ہی کرتا چلا گیا

ابھرتی تھی نفرتیں جہاں جہاں
چشمہ محبت کا پھوٹتا چلا گیا

آساں کہاں تھی زندگی
مر مر کے جیتا چلا گیا

مجموعہ اغلاط تھا صدیوں سے بشر
ریاضتوں سے اپنی سنورتا چلا گیا

حدت آفتاب سے پگھلتا چلا گیا
تھا منجمد دریا بہتا چلا گیا

Rate it:
Views: 671
02 Jan, 2014