مغموم ہو رہے ہو دکھا کر جفا کے ہاتھ
ہوتے ہیں کب نصیب میں سب کے وفا کے ہاتھ
شرم و حیا سے سرخ ہے چہرہ یہ پیار کا
آنکھوں پہ رکھ دیئے ہیں جی اب مسکرا کے ہاتھ
دامن میں اپنے دیکھ لو صدیوں کا قحط ہے
بے چین ہیں ہوائیں بھی غم میں جلا کے ہاتھ
وہ زندگی کے شہر میں خوش ہے تو کیا کروں
میں لٹ گئی ہوں زیست کی کافر ادا کے ہاتھ
غنچے نہیں نصیب میں یہ ریگ دشت ہے
پنچھی لگیں گے پیار کے اب تو قضا کے ہاتھ
باقی رہی نہ تاب ، نہ دل میں سکون ہے
گلشن میں یرغمال ہیں جب سے ہوا کے ہاتھ
یہ عمر رائیگان گئی تیرےہجر میں
اٹھے نہ وشمہ اپنے لئے کیوں دعا کے ہاتھ