تجھ کو “ ماں “ قصہ پارینہ میں کہتے تھے کبھی
اب تو “ موم “ ہے “ ماما “ کہ “ مدر “ کچھ بھی سہی
تیری اک بات کتابوں میں لکھی دیکھی ہے
جس نے ہر دور میں اپنی ہی بقا چھوڑی ہے
تو وہ ہستی ہے ، نہیں جسکی کوئی اور مثال
تو اکیلی ، تیری وحدت کو نہیں کوئی زوال
تو نے الطاف کی اکرام کی برسات سبھی پر کی ہے
تو نے ہر دور میں ہرحال میں بس جود و سخا کی ہے
تو صفات الٰہی کی ہے حامل تجھے کیا کہئے
عقل انسانی کے اس گنج کو اب کیا لکھئے
نہ ستائش کی تمنا ہے تجھے اور نہ صلہ کی پرواہ
ہر جگہ بانٹتی پھرتی ہے تو محبت کا نشہ
تجھ کو ماں سبھی کہتے ہیں بصد عجز و خیال
کیا یہ ممکن ہے کہیں اور ملے تیری مثال
میں نے بچپن میں پڑھا تھا ، تجھے ماں کہتے ہیں
سلسلہ ئِ رحم الٰہی کا تجھے نشاں کہتے ہیں