“ ماں گنجینہ گوہر “
Poet: Haji Abul Barkat,poet By: Haji Abul Barkat,Poet/Columnist, Karachiتجھ کو “ ماں “ قصہ پارینہ میں کہتے تھے کبھی
 اب تو “ موم “ ہے “ ماما “ کہ “ مدر “ کچھ بھی سہی
 
 تیری اک بات کتابوں میں لکھی دیکھی ہے 
 جس نے ہر دور میں اپنی ہی بقا چھوڑی ہے 
 
 تو وہ ہستی ہے ، نہیں جسکی کوئی اور مثال 
 تو اکیلی ، تیری وحدت کو نہیں کوئی زوال 
 
 تو نے الطاف کی اکرام کی برسات سبھی پر کی ہے
 تو نے ہر دور میں ہرحال میں بس جود و سخا کی ہے 
 
 تو صفات الٰہی کی ہے حامل تجھے کیا کہئے 
 عقل انسانی کے اس گنج کو اب کیا لکھئے 
 
 نہ ستائش کی تمنا ہے تجھے اور نہ صلہ کی پرواہ 
 ہر جگہ بانٹتی پھرتی ہے تو محبت کا نشہ
 
 تجھ کو ماں سبھی کہتے ہیں بصد عجز و خیال 
 کیا یہ ممکن ہے کہیں اور ملے تیری مثال 
 
 میں نے بچپن میں پڑھا تھا ، تجھے ماں کہتے ہیں 
 سلسلہ ئِ رحم الٰہی کا تجھے نشاں کہتے ہیں 
  
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم








 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 