Poetries by WASHMA KHAN
زندگی اتنی بھی تنگ آئی نہ تھی زندگی اتنی بھی تنگ آئی نہ تھی
جان لیوا بھی یہ تنہائی نہ تھی
دل کبھی ایسے لہو رویا نہ تھا
اپنی حالت پر ہنسی آئی نہ تھی
کوبہ کو ،قریہ قریہ شہر شہر
اس قدر بھی اپنی رسوائی نہ تھی
نوک ِ مژگاں پر ٹھہر جاتے تھے اشک
قہقہوں میں بھی توانائی نہ تھی
وقت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں لوگ
آتی جاتی سانس ہی پائی نہ تھی
اب تو جینے کی ہوس باقی نہیں
شہر میں کل تک یہ مہنگائی نہ تھی
آج کل وشمہ کسی کے دل کا حال
آئینہ بن کر ہی دیکھا ئی نہ تھی وشمہ خان وشمہ
جان لیوا بھی یہ تنہائی نہ تھی
دل کبھی ایسے لہو رویا نہ تھا
اپنی حالت پر ہنسی آئی نہ تھی
کوبہ کو ،قریہ قریہ شہر شہر
اس قدر بھی اپنی رسوائی نہ تھی
نوک ِ مژگاں پر ٹھہر جاتے تھے اشک
قہقہوں میں بھی توانائی نہ تھی
وقت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں لوگ
آتی جاتی سانس ہی پائی نہ تھی
اب تو جینے کی ہوس باقی نہیں
شہر میں کل تک یہ مہنگائی نہ تھی
آج کل وشمہ کسی کے دل کا حال
آئینہ بن کر ہی دیکھا ئی نہ تھی وشمہ خان وشمہ
 یہ جو آنکھوں کی اس زباں میں ہم   یہ جو آنکھوں کی اس زبا ں میں ہم 
جانے کیا کیا ترے گماں میں ہم
اک کمی ہے تو تیری خوشبو کی
اور سب کچھ مرے مکاں میں ہم
ویسے اڑتی ہوں آسمانوں پر
جسم میرا تو خاکداں میں ہم
میں بھی تیار ہوں بچھڑنے کو
وہ پرندہ بھی اب اڑ اں میں ہم
شب کی مٹھی ہیں ہے اگر جگنو
وشمہ روشن وہ میری جاں میں ہم وشمہ خان وشمہ
جانے کیا کیا ترے گماں میں ہم
اک کمی ہے تو تیری خوشبو کی
اور سب کچھ مرے مکاں میں ہم
ویسے اڑتی ہوں آسمانوں پر
جسم میرا تو خاکداں میں ہم
میں بھی تیار ہوں بچھڑنے کو
وہ پرندہ بھی اب اڑ اں میں ہم
شب کی مٹھی ہیں ہے اگر جگنو
وشمہ روشن وہ میری جاں میں ہم وشمہ خان وشمہ
 ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے  آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
وشمہ خان وشمہ
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
آئینہ کہہ رہا ہے کہ صورت اسی کی ہے
ہر شے میں اس کا عکس شباہت اسی کی ہے
رخسار ولب کو چومتی رہتی ہے ایک لٹ
کہتی ہے زلف ساری زرارت اسی کی ہے
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر میں محبت اسی کی ہے
خوش قامتی کا زعم ہے تجھ کو بھی تو بھی سن
قامت اگر کہیں ہے تو قامت اسی کی ہے
جس پاس بھی ہے عزت و ذلت کا اختیار
اس کو خبر ہے اس میں جوحکمت اسی کی ہے
گردن میں جس نے طوق مز لت سجا لیا
کہتا ہے سر اٹھاکے وہ عزت اسی کی ہے
زنجیر ِ پا بنی وہ نگا ہِ فسوں طراز
چشمِ غزال میں ہے جو وحشت اسی کی ہے
رائج ہے اس کے نام کا سکہ ابھی تلک
وشمہ زمین ِ دل پہ حکومت اسی کی ہے
وشمہ خان وشمہ
 ہے یہی خامی مرے محمان ہے  ہے یہی خامی مرے محمان ہے
پیچ و خم رکھتی ہوں میں انسان ہے
نقش میرے نقش ہیں ہر لفظ بیچ
میری صورت ہے مری پہچان ہے
جگمگاتی ہے کرن امید کی
اک دیا ہے میرے ہی سامان ہے
اگلی پچھلی ساعتوں کا ذکر کیا
پھر پلٹ کر نہ آئیں دلَ نادان ہے
زندگی بھر ہم تہی دامن رہے
اک خوشی آئی ہے اب امکان ہے
ہوچکی وشمہ بہت اب ہو
بات کیجئے کام کی احسان ہے وشمہ خان وشمہ
پیچ و خم رکھتی ہوں میں انسان ہے
نقش میرے نقش ہیں ہر لفظ بیچ
میری صورت ہے مری پہچان ہے
جگمگاتی ہے کرن امید کی
اک دیا ہے میرے ہی سامان ہے
اگلی پچھلی ساعتوں کا ذکر کیا
پھر پلٹ کر نہ آئیں دلَ نادان ہے
زندگی بھر ہم تہی دامن رہے
اک خوشی آئی ہے اب امکان ہے
ہوچکی وشمہ بہت اب ہو
بات کیجئے کام کی احسان ہے وشمہ خان وشمہ
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے  زندگانی اب کہاں فرصت میں ہے
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے
کیسے آئی پتھروں کے شہر میں
دل کا آئینہ بڑی حسرت میں ہے
بخش دے مجھ کو بھی عزت بخش دے
اے خدا سب کچھ تیری قدررت میں
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں
اور وہ جھوٹا بڑی شہرت میں ہے
اچھا دیکھا آپ کو اے جان ِ جاں
دل ہمارا اب بری حالت میں ہے
اٹھ ذرا بیدار ہو اب تو وشمہ
تو نہ جانے کون سی غفلت میں ہے وشمہ خان وشمہ
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے
کیسے آئی پتھروں کے شہر میں
دل کا آئینہ بڑی حسرت میں ہے
بخش دے مجھ کو بھی عزت بخش دے
اے خدا سب کچھ تیری قدررت میں
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں
اور وہ جھوٹا بڑی شہرت میں ہے
اچھا دیکھا آپ کو اے جان ِ جاں
دل ہمارا اب بری حالت میں ہے
اٹھ ذرا بیدار ہو اب تو وشمہ
تو نہ جانے کون سی غفلت میں ہے وشمہ خان وشمہ
 غصہ دکھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے  غصہ دکھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
الفت چھپا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ہم تو سنا رہے ہیں حال اپنی زندگی کا
تم مسکرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
میں پھول دے رہی ہوں جان بہار اور تم
پتھر اٹھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ملنے کو تم سے آئی میں گاؤں میں تمہارے
تم شہر جا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
اچھی یہ دل لگی ہے اے جان دل چرا کر
نظریں چرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
کیوں اے وشمہ جھوٹی باتیں بنا بنا کر
افواہ اڑا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے وشمہ خانو شمہ
الفت چھپا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ہم تو سنا رہے ہیں حال اپنی زندگی کا
تم مسکرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
میں پھول دے رہی ہوں جان بہار اور تم
پتھر اٹھا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
ملنے کو تم سے آئی میں گاؤں میں تمہارے
تم شہر جا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
اچھی یہ دل لگی ہے اے جان دل چرا کر
نظریں چرا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے
کیوں اے وشمہ جھوٹی باتیں بنا بنا کر
افواہ اڑا رہے ہو یہ بات تو غلط ہے وشمہ خانو شمہ
 دعاؤں کو میرے رسائی ملی  دعاؤں کو میرے رسائی ملی
دردِ مصطفے کی گدائی ملی
جو پڑھتے ہیں نعتِ شہِ دین کی
مجھے دولت خوش نوائی ملی
وہ دونوں جہاں میں ہوا کامراں
جنھیں آپ کی آشنائی ملی
نبی کا جو گستاخ ہے دہر میں
اسے ہر جگہ جگ ہنسائی ملی
جسے مل گئ الفت شاہ دیں
اسے گویا ساری خدائی ملی
غلامی کی جس کو سند مل گئی
اسے وشمہ پارسائی ملی وشمہ خان وشمہ
دردِ مصطفے کی گدائی ملی
جو پڑھتے ہیں نعتِ شہِ دین کی
مجھے دولت خوش نوائی ملی
وہ دونوں جہاں میں ہوا کامراں
جنھیں آپ کی آشنائی ملی
نبی کا جو گستاخ ہے دہر میں
اسے ہر جگہ جگ ہنسائی ملی
جسے مل گئ الفت شاہ دیں
اسے گویا ساری خدائی ملی
غلامی کی جس کو سند مل گئی
اسے وشمہ پارسائی ملی وشمہ خان وشمہ
جزبات لے اڑا تو کوئی مال لے گیا  جزبات لے اڑا تو کوئی مال لے گیا
باقی جو بچ گیا وہ گیا سال لے گیا
میرے وجود میں بھی تو آیا تھا زلزلہ
میری متاع ِ زیست بھی بھونچال لے گیا
آندھی تھمی تو کوئی اسیرِ قفس نہ تھا
پنچھی چمن بھی اپنے پروبال لے گیا
پابند ہیں زباں کے وگر نہ خدا گواہ
توڑا کسی نے قفل کوئی جال لے گیا
بے چارگی کے ڈر سے وہ اک آئینہ صفت
مجھ سے پھر اتو میرے خط و خال لے گیا
میرا دماغ عرش پہنچا ادھر مجھے
میرا ضمیر کھنچ کے پاتال لے گیا
وشمہ درحضور شفاعت کے واسطے
میں ساتھ اپنا نامہ اعمال لے گیا وشمہ خان وشمہ
باقی جو بچ گیا وہ گیا سال لے گیا
میرے وجود میں بھی تو آیا تھا زلزلہ
میری متاع ِ زیست بھی بھونچال لے گیا
آندھی تھمی تو کوئی اسیرِ قفس نہ تھا
پنچھی چمن بھی اپنے پروبال لے گیا
پابند ہیں زباں کے وگر نہ خدا گواہ
توڑا کسی نے قفل کوئی جال لے گیا
بے چارگی کے ڈر سے وہ اک آئینہ صفت
مجھ سے پھر اتو میرے خط و خال لے گیا
میرا دماغ عرش پہنچا ادھر مجھے
میرا ضمیر کھنچ کے پاتال لے گیا
وشمہ درحضور شفاعت کے واسطے
میں ساتھ اپنا نامہ اعمال لے گیا وشمہ خان وشمہ
زندگی ہے کہاں پتہ تو چلے زندگی ہے کہاں پتہ تو چلے
ہے یہاں یا وہاں پتہ تو چلے
آپ لیتے تو ہیں وفا کا نام
پر وفا ہے کہاں پتہ تو چلے
سب بتاتے ہیں پاسباں خود کو
کون ہے پاسباں پتہ تو چلے
کاسنی سی ہنسی ہے ہونٹوں پر
اس کی آنکھوں کی جاں پتہ تو چلے
وہ جو بستی میں سب سے اونچا تھا
کیا ہوا وہ مکاں پتہ تو چلے
جابجا کیوں ہے آج گلشن میں
ہر کلی خونچکاں پتہ تو چلے
کچھ کہو تو اے وشمہ محفل میں
کیا ہے اردو زباں پتہ تو چلے وشمہ خان وشمہ
ہے یہاں یا وہاں پتہ تو چلے
آپ لیتے تو ہیں وفا کا نام
پر وفا ہے کہاں پتہ تو چلے
سب بتاتے ہیں پاسباں خود کو
کون ہے پاسباں پتہ تو چلے
کاسنی سی ہنسی ہے ہونٹوں پر
اس کی آنکھوں کی جاں پتہ تو چلے
وہ جو بستی میں سب سے اونچا تھا
کیا ہوا وہ مکاں پتہ تو چلے
جابجا کیوں ہے آج گلشن میں
ہر کلی خونچکاں پتہ تو چلے
کچھ کہو تو اے وشمہ محفل میں
کیا ہے اردو زباں پتہ تو چلے وشمہ خان وشمہ
میں زندہ ہوں تو زندہ ہے پاکستان  
کہا کس نے کہ مردہ ہے پاکستان
میں زندہ ہوں تو زندہ ہےپاکستان
نہ میرا ہے نہ تیرا ہےپاکستان
ہمارا تھا ہمارا ہےپاکستان
لبوں پر مہر خاموشی ہے گویا
بظاہر سب کی سنتا ہےپاکستان
کہو مت اس کو گونگا اور بہرا
نہ گونگا ہے نہ بہرا ہے پاکستان
بھپر جائے تو مشکل ہے سنبھلنا
اسی ڈر سے تو ڈرتا ہےپاکستان
فضا میں زہر گھولا جارہا ہے
سناہے سانس لیتا ہے پاکستان
جسے سب قید کرنا چاہتے ہیں
یہ وہ سونے کی چڑیا ہےپاکستان
کوئی کیسے ڈبو سکتا ہے اس کو
سمندر میں بھی بستا ہے پاکستان
ملے گردیدہ بینا تو دیکھو
سمندر دل میں رکھتا ہے پاکستان
سمٹ آیا ہے کراچی اس میں
ہر اک صوبے کا چہرہ ہےپاکستان
ہمارے دم میں دم اس سے وشمہ
مثال دل دھڑکتا ہےپاکستان وشمہ خان وشمہ
کہا کس نے کہ مردہ ہے پاکستان
میں زندہ ہوں تو زندہ ہےپاکستان
نہ میرا ہے نہ تیرا ہےپاکستان
ہمارا تھا ہمارا ہےپاکستان
لبوں پر مہر خاموشی ہے گویا
بظاہر سب کی سنتا ہےپاکستان
کہو مت اس کو گونگا اور بہرا
نہ گونگا ہے نہ بہرا ہے پاکستان
بھپر جائے تو مشکل ہے سنبھلنا
اسی ڈر سے تو ڈرتا ہےپاکستان
فضا میں زہر گھولا جارہا ہے
سناہے سانس لیتا ہے پاکستان
جسے سب قید کرنا چاہتے ہیں
یہ وہ سونے کی چڑیا ہےپاکستان
کوئی کیسے ڈبو سکتا ہے اس کو
سمندر میں بھی بستا ہے پاکستان
ملے گردیدہ بینا تو دیکھو
سمندر دل میں رکھتا ہے پاکستان
سمٹ آیا ہے کراچی اس میں
ہر اک صوبے کا چہرہ ہےپاکستان
ہمارے دم میں دم اس سے وشمہ
مثال دل دھڑکتا ہےپاکستان وشمہ خان وشمہ
تیری یاد کے سائے سائے  اک عرصہ ہم چلتے آئے
تیری یاد کے سائے سائے
آنکھ کا دامن خالی خالی
جیسے اک ویران سرائے
دل کی دھڑکن تیز بہت ہے
جسم کا برتن ٹوٹ نہ جائے
خود کو کھو کر تجھ کو پایا
تجھ کو کھو کر کیا کوئی پائے
اس کا پنچھی اڑتے اڑتے
آنکھ سے اوجھل ہونا ہائے
وہ جو تجھ کو بھول گیا ہے
اتنا بھی وہ یاد دلائے
جانے کیا وشمہ ہے دل کو
کوئی موسم راس نہ آئے وشمہ خان وشمہ
تیری یاد کے سائے سائے
آنکھ کا دامن خالی خالی
جیسے اک ویران سرائے
دل کی دھڑکن تیز بہت ہے
جسم کا برتن ٹوٹ نہ جائے
خود کو کھو کر تجھ کو پایا
تجھ کو کھو کر کیا کوئی پائے
اس کا پنچھی اڑتے اڑتے
آنکھ سے اوجھل ہونا ہائے
وہ جو تجھ کو بھول گیا ہے
اتنا بھی وہ یاد دلائے
جانے کیا وشمہ ہے دل کو
کوئی موسم راس نہ آئے وشمہ خان وشمہ
پر دیس چھوڑ کہ وشمہ چمن میں آئی ہوں  پر دیس چھوڑ کہ وشمہ چمن میں آئی ہوں
اک عرصے بعد میں اپنے وطن میں آئی ہوں
پرانی طرز کو اپناؤں یا نئی رائیں
شدید کرب کی فکر و فن میں آئی ہوں
یہ سادگی ہے کہ دیوانگی خدا جانے
جو پیار ڈھو نڈے نفرت کے بن میں آئی ہوں
رہائی پانا بھی چاہوں تو پا نہیں سکتی
ہزار رشتے لئے پرہن میں آئی ہوں
کچھ اور کرنا تھا مجھ کو میں کر رہی ہوں کچھ اور
یہ کس کی روح لئے اپنے تن میں آئی ہوں
وشمہ پھیکا تھا ہر رنگ شاعری کے بغیر
یہی سبب ہے جو بزم سخن میں آئی ہوں وشمہ خان وشمہ
اک عرصے بعد میں اپنے وطن میں آئی ہوں
پرانی طرز کو اپناؤں یا نئی رائیں
شدید کرب کی فکر و فن میں آئی ہوں
یہ سادگی ہے کہ دیوانگی خدا جانے
جو پیار ڈھو نڈے نفرت کے بن میں آئی ہوں
رہائی پانا بھی چاہوں تو پا نہیں سکتی
ہزار رشتے لئے پرہن میں آئی ہوں
کچھ اور کرنا تھا مجھ کو میں کر رہی ہوں کچھ اور
یہ کس کی روح لئے اپنے تن میں آئی ہوں
وشمہ پھیکا تھا ہر رنگ شاعری کے بغیر
یہی سبب ہے جو بزم سخن میں آئی ہوں وشمہ خان وشمہ
سناؤں کیسے اپنی داستاں کو  سناؤں کیسے اپنی داستاں کو
ہزاروں غم لگے ہیں ایک جاں کو
کروں کیا لے کے ایسی زندگانی
لگا دو آگ ایسے گلستاں کو
غم دوراں کہاں دیتا ہے فرصت
کروں تعمیر پھرمیں آشیاں کو
جہاں ہنسنے کو ترسیں غنچہ و گل
بنالوں دوست پہلے آسماں کو
ہے شامل اس میں موجوں کی روانی
کوئی روکے گا کیا اردو زباں کو
وشمہ اک بار بھی مڑکر نہ دیکھا
بہت آواز دی عمر رواں کو وشمہ خان وشمہ
ہزاروں غم لگے ہیں ایک جاں کو
کروں کیا لے کے ایسی زندگانی
لگا دو آگ ایسے گلستاں کو
غم دوراں کہاں دیتا ہے فرصت
کروں تعمیر پھرمیں آشیاں کو
جہاں ہنسنے کو ترسیں غنچہ و گل
بنالوں دوست پہلے آسماں کو
ہے شامل اس میں موجوں کی روانی
کوئی روکے گا کیا اردو زباں کو
وشمہ اک بار بھی مڑکر نہ دیکھا
بہت آواز دی عمر رواں کو وشمہ خان وشمہ
کہیں راکٹ ہے تو کہیں بم ہے کہیں راکٹ ہے تو کہیں بم ہے
ساری دنیا کا ناک میں دم ہے
جانے کس وقت پھٹ پڑے کئی بھی
یہ جہاں بھی تو بم سے کیا کم ہے
زندگی ہے تو بس امیروں کی
جس کی ز ند گی میں وہ بے غم ہے
چار دن کی ہے زندگی جس پر
ٹیکس ہے ڈیوٹی ہے کسٹم ہے
زندگی ایسئ فلم ہے جس میں
بم با رو د ہے طیا رے چھم چھم ہے
زندہ رہنے سے میرے دشمن کے
گھر میں گھی کے چراغ ہی کم ہے
شب کی مٹھی ہیں ہے اگر جگنو
وشمہ میری جاں جس میں دم ہے وشمہ خان وشمہ
ساری دنیا کا ناک میں دم ہے
جانے کس وقت پھٹ پڑے کئی بھی
یہ جہاں بھی تو بم سے کیا کم ہے
زندگی ہے تو بس امیروں کی
جس کی ز ند گی میں وہ بے غم ہے
چار دن کی ہے زندگی جس پر
ٹیکس ہے ڈیوٹی ہے کسٹم ہے
زندگی ایسئ فلم ہے جس میں
بم با رو د ہے طیا رے چھم چھم ہے
زندہ رہنے سے میرے دشمن کے
گھر میں گھی کے چراغ ہی کم ہے
شب کی مٹھی ہیں ہے اگر جگنو
وشمہ میری جاں جس میں دم ہے وشمہ خان وشمہ
تنہا ایک اکیلا دل  تنہا ایک اکیلا دل
کب تک تکتی سب کا دل
خاموشی سے دیکھتا ہے
سارا کھیل تماشا دل
میں نے اس کی آنکھوں میں
دیکھا ایک دھڑکتا دل
دلوالوں سے آنکھ ملائے
کس کا جگرا کس کا دل
چھوٹی سی اک بات کہوں
ٹوٹ گیا ہے میرا دل
مل جائے تو لے آنا
ہم سا کوئی سادہ دل
اپنی پیاس بھی مجھ کو دی
صحرا نکلا دریا دل
دل والوں میں لگتا ہے
تم سے زیادہ وشمہ دل وشمہ خان وشمہ
کب تک تکتی سب کا دل
خاموشی سے دیکھتا ہے
سارا کھیل تماشا دل
میں نے اس کی آنکھوں میں
دیکھا ایک دھڑکتا دل
دلوالوں سے آنکھ ملائے
کس کا جگرا کس کا دل
چھوٹی سی اک بات کہوں
ٹوٹ گیا ہے میرا دل
مل جائے تو لے آنا
ہم سا کوئی سادہ دل
اپنی پیاس بھی مجھ کو دی
صحرا نکلا دریا دل
دل والوں میں لگتا ہے
تم سے زیادہ وشمہ دل وشمہ خان وشمہ
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں  زندگانی اب کہاں فرصت میں ہے
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے
کیسے آئی پتھروں کے شہر میں
دل کا آئینہ بڑی حسرت میں ہے
بخش دے مجھ کو بھی عزت بخش دے
اے خدا سب کچھ تیری قدررت میں
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں
اور وہ جھوٹا بڑی شہرت میں ہے
اچھا دیکھا آپ کو اے جان ِ جاں
دل ہمارا اب بری حالت میں ہے
اٹھ ذرا بیدار ہو اب تو وشمہ
تو نہ جانے کون سی غفلت میں ہے وشمہ خان وشمہ
آج کا انساں بڑی عجلت میں ہے
کیسے آئی پتھروں کے شہر میں
دل کا آئینہ بڑی حسرت میں ہے
بخش دے مجھ کو بھی عزت بخش دے
اے خدا سب کچھ تیری قدررت میں
میں تو سچا ہوکے بھی گمنام ہوں
اور وہ جھوٹا بڑی شہرت میں ہے
اچھا دیکھا آپ کو اے جان ِ جاں
دل ہمارا اب بری حالت میں ہے
اٹھ ذرا بیدار ہو اب تو وشمہ
تو نہ جانے کون سی غفلت میں ہے وشمہ خان وشمہ
اک عرصے بعد میں اپنے وطن میں آئی ہوں  قفس کو چھوڑ کے وشمہ چمن میں آئی ہوں
اک عرصے بعد میں اپنے وطن میں آئی ہوں
پرانی طرز کو اپناؤں یا نئی رائیں
عجیب کشمکش فکر و فن میں آئی ہوں
یہ سادگی ہے کہ دیوانگی خدا جانے
جو پیار ڈھو نڈنے نفرت کے بن میں آئی ہوں
رہائی پانا بھی چاہوں تو پا نہیں سکتی
ہزار رشتے لئے پرہن میں آئی ہوں
کچھ اور کرنا تھا مجھ کو میں کر رہی ہوں کچھ اور
یہ کس کی روح لئے اپنے تن میں آئی ہوں
وشمہ پھیکا تھا ہر رنگ شاعری کے بغیر
یہی سبب ہے جو بزم سخن میں آئی ہوں وشمہ کان وشمہ
اک عرصے بعد میں اپنے وطن میں آئی ہوں
پرانی طرز کو اپناؤں یا نئی رائیں
عجیب کشمکش فکر و فن میں آئی ہوں
یہ سادگی ہے کہ دیوانگی خدا جانے
جو پیار ڈھو نڈنے نفرت کے بن میں آئی ہوں
رہائی پانا بھی چاہوں تو پا نہیں سکتی
ہزار رشتے لئے پرہن میں آئی ہوں
کچھ اور کرنا تھا مجھ کو میں کر رہی ہوں کچھ اور
یہ کس کی روح لئے اپنے تن میں آئی ہوں
وشمہ پھیکا تھا ہر رنگ شاعری کے بغیر
یہی سبب ہے جو بزم سخن میں آئی ہوں وشمہ کان وشمہ
خدا کا نام لو کوئی بھی یہ حماقت ہے ملے تو ایسے کہ جیسے بڑی محبت ہے
خدا کا نام لو کوئی بھی یہ حماقت ہے
مجھے پتا ہے کہ انجام عشق کیا ہوگا
تمہاری پہلی محبت مری شرافت ہے
جڑی ہوئی ہے معیشت سے خوئے دل داری
نکے کا عشق ہے دو پیسے کی کرامت ہے
یہ کہہ کے اس نے مجھے غصے میں ڈال دیا
ملاؤ ہاتھ اگر واقعی سعادت ہے
گلے لگا کے تو ملتا ہے جب بھی ملتا ہے
چلو یہی سہی منہ دیکھے یہ ملامت ہے
ہماری چھوٹی سی اک بات ٹال دی وشمہ
چلو چلو بڑے آئے بڑی ندامت ہے وشمہ خان وشمہ
خدا کا نام لو کوئی بھی یہ حماقت ہے
مجھے پتا ہے کہ انجام عشق کیا ہوگا
تمہاری پہلی محبت مری شرافت ہے
جڑی ہوئی ہے معیشت سے خوئے دل داری
نکے کا عشق ہے دو پیسے کی کرامت ہے
یہ کہہ کے اس نے مجھے غصے میں ڈال دیا
ملاؤ ہاتھ اگر واقعی سعادت ہے
گلے لگا کے تو ملتا ہے جب بھی ملتا ہے
چلو یہی سہی منہ دیکھے یہ ملامت ہے
ہماری چھوٹی سی اک بات ٹال دی وشمہ
چلو چلو بڑے آئے بڑی ندامت ہے وشمہ خان وشمہ
 خونِ دل آنکھوں سے آیا کیجئے  خونِ دل آنکھوں سے آیا کیجئے
اب تو غم بھی یہ دکھایا کیجئے
آج اور کل میں ہے کتنا ٖٖ فاصلہ
کوئی تو ہو مسکرایا کیجئے
وقت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں لوگ
آتی جاتی سانس اٹھانا کیجئے
اب تو جینے کی ہوس باقی نہیں
قرضِ جسم و جان اتر یا کیجئے
ماند ہے کتنے ہی مہتابوں کا نور
پھر بھی سورج کو جلایا کیجئے
اے صبا اچھی نہیں یہ بے رخی
کچھ تو حال دل بھی بتا یا کیجئے
آج کل وشمہ کسی کے دل کا حال
حق بجانب ہو بجا یا کیجئے وشمہ خان وشمہ
اب تو غم بھی یہ دکھایا کیجئے
آج اور کل میں ہے کتنا ٖٖ فاصلہ
کوئی تو ہو مسکرایا کیجئے
وقت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں لوگ
آتی جاتی سانس اٹھانا کیجئے
اب تو جینے کی ہوس باقی نہیں
قرضِ جسم و جان اتر یا کیجئے
ماند ہے کتنے ہی مہتابوں کا نور
پھر بھی سورج کو جلایا کیجئے
اے صبا اچھی نہیں یہ بے رخی
کچھ تو حال دل بھی بتا یا کیجئے
آج کل وشمہ کسی کے دل کا حال
حق بجانب ہو بجا یا کیجئے وشمہ خان وشمہ
شدیتیں دیکھوں! وحشتیں لکھنا سہمی سہمی سی خواہشیں لکھنا
سوچ گلیوں میں الجھنیں لکھنا
دشتِ اُمید کے بگُولوں کی
شدیتیں دیکھوں! وحشتیں لکھنا
رَوِشِ نَبضِ وقت دیکھوں یا
دم بہ لب دل کی دھڑکنیں لکھنا
خواب نگری میں تیری خوشبو کی
بھینی بھینی سی آہٹیں لکھنا
وعدہ ء خُلد اب وفا کر دے
اور کتنی قیامتیں لکھنا
حُجلہ ء جاں میں ہر طرف وشمہ
حِرزِ جاں کی محبتیں لکھنا وشمہ خان وشمہ
سوچ گلیوں میں الجھنیں لکھنا
دشتِ اُمید کے بگُولوں کی
شدیتیں دیکھوں! وحشتیں لکھنا
رَوِشِ نَبضِ وقت دیکھوں یا
دم بہ لب دل کی دھڑکنیں لکھنا
خواب نگری میں تیری خوشبو کی
بھینی بھینی سی آہٹیں لکھنا
وعدہ ء خُلد اب وفا کر دے
اور کتنی قیامتیں لکھنا
حُجلہ ء جاں میں ہر طرف وشمہ
حِرزِ جاں کی محبتیں لکھنا وشمہ خان وشمہ