( موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں لکھی گئی ایک نظم )
اس پاک سرزمیں کے ٗ ہم ہیں غریب شہری
غربت کی یہ سزا ہے ٗ تڑپائے جا رہے ہو
کہنے کو یوں تو ہم ہی ٗ سرمایہ ِ وطن ہیں
اس ملک کی یہ دولت ٗ تم کیوں لٹا رہے ہو
مانا غریب ہیں ہم ٗ بے بس نہیں ہیں لیکن
تاریخ کے سبق کو ٗ کیوں تم بھلا رہے ہو
رہے آشیاں سلامت ٗ مٹیں دشمن وطن سب
انجام ِبد سے ہم کو ٗ کیوں تم ڈرا رہے ہو
منشور تھا تمہارا ٗ روٹی مکان کپڑا
کچھ بھی نہ دے سکے تم ٗ بہلائے جا رہے ہو
ایک ایک تنکا چن کے ٗ تھا آشیاں بنایا
اس آشیاں کو تم اب ٗ خود کیوں جلا رہے ہو
انصاف کا تقاضا ٗ ہم نے کیا تھا تم سے
بدلے میں ظلم ہم پر ٗ تم ہی تو ڈھا رہے ہو
کیسے یقیں یہ کر لیں ٗ ہو پاسباں ہمارے
یہ خواب تم سہانے ٗ کب سے دکھا رہے ہو
کیوں عظمت وطن ٗ کو نیچا دکاا رہے ہو
چولیں وطن کی آخر ٗ تم کیوں ہلا رہے ہو
یہ ملک ہے مقدس ٗ یہ پاک سر زمیں ہے
ناپاک اسکو تم سب ٗ کب سے بنا رہے ہو
اک دن حساب ہوگا ٗ مجرم نہ بچ سکیں گے
کیوں ڈھیل کو خدا کی ٗ تم آزما رہے ہو
غیض و غضب ہمارا ٗ آتش فشاں بنے گا
انجام کو تم اپنے ٗ پہلے بلا رہے ہو
خوابوں کا وقت گزرا ٗاب جاگ ہم چکے ہیں
یہ خواب ہیں سہانے ٗ جو تم دکھا رہے ہو
ایسا نہ ہو کہ سستی ٗ بن جائے اک حزیمت
ہے جاگنے کا موقع ٗ پھر کیوں سلا رہے ہو
اٹھ کر وطن کے لوگو ٗ ان رہبروں سے پوچھو
ہوحکمراں ہمارے ٗ پھر کیوں ستا رہے ہو
قائد کی روح زخمی ٗ ہم بھی ہیں دل شکستہ
کیوں لیڈرانِ ملت ٗ ہم کو رلا رہے ہو
اب بوٹیاں نچیں گی ٗ ہر سازشی کی اس دم
ہے انقلاب برحق ٗ جس کو بلاں رہے ہو
آزاد قوم ہیں ہم ٗ پھر یہ غلامی کیسی
کیوں بیڑیاں ہمیں تم ٗ پہنا ئے جا رہے ہو