کوئی فیصلہ جو اس کو سنانے نہیں دیا
اپنا بھی حال دل کو بتانے نہیں دیا
بیٹھی ہوں انتظار میں بے چینیاں لئے
اس کا پتہ سفر میں ہوانے نہیں دیا
تنہائیاں رفیق رہی ہیں تمام عمر
قرطاس پر بھی چہرہ سجانے نہیں دیا
یہ درد ہر مقام پہ رکھے گا مضطرب
جب اجنبی کو دل سے ہی جانے نہیں دیا
نفرت نصیب ہوگی حریفوں کے درمیاں
دشمن کو اب چراغ جلانے نہیں دیا
اس کا رہا جدائی میں غیروں سے واسطہ
اپنوں کو دل میں آج بھی آنے نہیں دیا
وشمہ نہ ہوگا پیار پہ آہوں کا کچھ اثر
اس زندگی کو کچھ بھی دوانے نہیں دیا