مادرِ عزیزم صد احترام
اور بڑے معذرت کے ساتھ
میری اک التجا ہے
میری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کرنا
کہ جب بچپن میں خواہش کرتا تھا،
کھلونوں کا،اُن سے کھیلنے کا
اک حوس ہوتا تھا میرے اندر
کہ جہسے دوسروں کے پاس ہے
اسطرح میرے پاس بھی ہو!
اور ہاں میرا انتہا کا جنون تھا۔۔
شاید کہ تمہیں یاد ہو گا!
کہ مجھے انڈہ کھانے کا بہت شوق تھا
میری خواہش ہوتی تھی کہ اگر کھاوں تو بس صرف انڈہ ہی کھاتا رہوں
وہ اک حوس تھا میرے بچپن کا۔۔۔۔۔۔۔مگر!!!!
اور ہاں تمہارے ہاتھ کے بُننے ہو ئے بنیان۔۔
جو مجھے بہت عزیز تھے،
کہ میں بھی پہنوں اپنے ماں کے ہاتھ کے پُننے ہوئے بنیان،
جیسے کے دوسروں کے بچے پہنتے ہیں۔۔۔مگر کبھی نصیب نہیں ہوئے!!
اور ہاں اپ کا مجھ پر بڑا ناز تھا
میری ہوشیاری پر اور میری ہونہاری پر
اور ہاں میری ماں مجھے وہ اوقات بہت اچھی طرح یاد ہیں
جب میں اسکول جاتا تھا
تو صبح نکلتے ہوئے میرا پیٹ خالی ہوتا تھا
گرچہ کپڑے اور جوتے پہنے ہوتے تھے
وہ بھی نہیں اپنے ہوتے!!!
یہ سب وقت کی ستم ظریفی جو اپنی جگہ ہے
مگر اک سوال اپ سے
اور اپنے باپ سے ہے
کہ جب کبھی شازو نادر کوئی چیز مُیسر ہوتا تھا۔۔
تو دوسروں کی نسبت مجھے محروم کیوں رکھتے تھے؟؟؟؟
کیوں دوسروں کو ترجیح دیتے تھے؟؟؟؟
اب یہ خواہش کیسے جاگی ہے کہ!
ہر چیز بہتر میں کھاوں ! اور ہر چیز خوب تر میں پہنوں!
جبکہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے ۔۔۔۔
اور میرا تن پھی پوشیدہ ہے۔۔
میں تو لبریز ہوں دُنیاوی ہر لوازم سے!
مہربانی اب ان کو سنبھالیں۔۔!
مُجھے دُعا چاہیئے بس!!
صرف اب کی دُعا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،