کاشانہ حریم کے ذیشان آ گئے
جھومو کے عاصیوں وہ مہربان آگئے
سارے جہاں میں نور و ہدایت کے واسطے
غار حرا سے لے کہ وہ قرآن آگئے
آمد کا سن کے ارض و سماء جھوم اٹھے سبھی
رحمت وہ بن کے مالک رحمان آگئے
خوشیاں منائیں کیوں نہ گنہگار حشر میں
لیکر جو مغفرت کا وہ فرمان آگئے
ملتیں ہیں انکے در سے غلاموں کو رفعتیں
جذبے نکھارنے وہ قدر دان آگئے
نور جمال احمد مرسل کو دیکھ کر
جنت سے بھیک مانگنے رضوان آگئے
تلوؤں کے انکے بوسے لیئے عرش نے وہاں
معراج پر وہ بن کے جو مہمان آگئے
شاہوں کے بادشاہ کی نظر اٹھ گئی جدھر
زیر نگیں شام و ایران آ گئے
رحم و کرم کے انکے قصیدے ہی پڑھ اشہر
رکھنے وہ آج تیرا یہاں مان آگئے