مدہوشی میں ایک مبہم سا شور تھا اُنکا
مقابل ِ جوانی سناٹا پایا!جب ہوش آئی
بھرم ٹوٹ گیا پھر دوست کی دوستی کا
بھروسہ لے ڈوباہمیں!جب ہوش آئی
کس کو جا کر سناؤں حال اپنے غم کا
بے نقاب تھے سب!جب ہوش آئی
کاٹ لیں گے اب وقت بھی ہجر کا
وصال خواب نظر آیا!جب ہوش آئی