تھا دعوی مسیحائ کا اسے
زخموں کو اپنے ہی بھرتا چلا گیا
ماہ و سال کا حصول بتا تو سہی
سوال آئینے سے کرتا چلا گیا
کیا کھونا تھا کیا پانا تھ اسے
لکیروں میں مقدر کی ڈھلتا چلا گیا
روانی قلم پہ بڑا ناز تھا
مدحتیں اپنی ہی کرتا چلا گیا
ابھرتی تھی نفرتیں جہاں جہاں
چشمہ محبت کا پھوٹتا چلا گیا
آساں کہاں تھی زندگی
مر مر کے جیتا چلا گیا
مجموعہ اغلاط تھا صدیوں سے بشر
ریاضتوں سے اپنی سنورتا چلا گیا
حدت آفتاب سے پگھلتا چلا گیا
تھا منجمد دریا بہتا چلا گیا